شادی کس عمر میں کرنی
چاہئے
لڑکیوں کی جلد شادی
نہ کرنے کے مفاسد
بعض نا عاقبت اندیش
کنواری لڑکیوں کو بالغ ہو جانے کے بعد بھی کئی کئی سال بٹھلائے رکھتے ہیں۔ اور محض
ناموری کے سامان کے انتظار میں ان کی شادی نہیں کرتے حتیٰ کہ بعض بعض تیس تیس اور
کہیں چالیس چالیس برس کی عمر کو پہنچ جاتی ہیں۔ اور اندھے سرپرستوں کو کچھ نظر ہی
نہیں آتا کہ اس کا انجام کیا ہوگا حدیثوں میں جو اس پر وعید آئی ہے کہ اگر اس صورت
میں عورت سے کوئی لغزش ہو گئی تو وہ گناہ باپ پر بھی لکھا جاتا ہے یا جو (بھی باپ
کے قائم مقام مثلاً بھائی) ذی اختیار ہو اس پر بھی لکھا جاتا ہے۔ اگر کسی کو اس وعید کا خوف نہ ہو تو دنیا
کی آبرو کو تو دنیا دار بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ سو اس میں اس کا بھی اندیشہ ہے
چنانچہ کہیں حمل گرائے گئے ہیں کہیں لڑکیاں کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہیں۔
اگر کسی شریف خاندان
میں ایسا ہو تب بھی وہ لڑکیاں ان سر پرستوں کو تو دل ہی دل میں کوستی ہیں اور
چونکہ وہ مظلوم ہیں۔ اس لئے ان کا کوسنا خالی نہیں جاتا۔
ان لوگوں کو یہ بھی
شرم نہیں آتی کہ خود باوجود بوڑھے ہو جانے کے ایک بڑھیا کو جو اس لڑکی کی ماں ہے
خلوت میں جا کر اس کے ساتھ عیش و عشرت کرتے ہیں۔ اور جس غریب مظلوم کی عیش کا موسم
ہے وہ پہرہ داروں کی طرح ماما (نوکرانی) کے ساتھ ان کے گھر کی چوکسی کرتی ہیں کیسا
بے ربط خبط ہے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۲۹ جلد ۲)
سامان جہیز اور زیور
کی وجہ سے تاخیر
اکثر یہ دیکھا گیا ہے
جس انتظار میں یہ ٹال مٹول کی جاتی ہے وہ بھی نصیب نہیں ہوتا یعنی سامان اور زیور۔
اور فخر کے لئے وہ سرمایہ بھی میسر نہیںہوتا۔ اور مجبوری میںجھک مار کر خشک نکاح ہی
کرنا پڑتا ہے۔ پھر کوئی ان سے پوچھے کہ دیر کرنے میں تو اور بھی زیادہ بدنامی ہے
کہ میاں اتنے دن بھی لگائے اور پھر بھی خاک نہ ہو سکا لڑکی کو اگر ایسا ہی دینے کا
شوق ہے تو نکاح کے بعد دینے کو کس سے منع کیا ہے۔
(ایضاً صفحہ ۳۰ تا ۳۷ جلد ۲)
دعوت وغیرہ کا انتظام
نہ ہونے کی وجہ سے تاخیر
اگر عام دعوت کرنے کا
شوق ہے تو دعوت کے ہزار بہانے ہر وقت نکل سکتے ہیں یہ کیا فرض ہے کہ سارے ارمانوں
کی اسی مظلومہ پر مشق کی جائے یہ بالکل صریح ظلم اور برا عمل ہے۔ حدیث میں ہے اگر
تمہارے پاس ایسا شخص آئے جس کے اخلاق اور دین داری تم کو پسند ہو تو تم اپنی لڑکی
کا نکاح اس سے کرو ورنہ زمین میں فتنہ اور فساد پھیلے گا۔
(اصلاح انقلاب صفحہ ۳۰ تا ۳۷)
مناسب رشتہ ملنے کا
فضول عذر
بعض لوگ یہ عذر کرتے
ہیں کہ کہیں سے موقع کا رشتہ ہی نہیں آتا توکیا کسی کے ہاتھ پکڑا دیں۔ یہ عذر اگر
واقعی ہوتا تو صحیح تھا۔ یعنی سچ مچ اگر موقع کا رشتہ نہ آتا تو واقعی یہ شخص
معذور تھا۔ لیکن خود اس میں کلام ہے کہ جو رشتے آتے ہیں کیا وہ سب ہی بے موقع ہیں۔
بات یہ ہے کہ بے موقع کا مفہوم خود انہوں نے اپنے ذہن میں تصنیف کر رکھا ہے جس کے
اجزاء یہ ہیں۔
حسب نسب میں حضرات
حسنین w
جیسا ہو۔
اور اخلاق میں جنید
جیسا ہو۔
"اور علم میں
اگر وہ دینی علم ہے تو ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے برابر ہو‘ اگر دنیوی علم ہے تو بو علی
سینا کا مثل ہو۔
حسن میں یوسف علیہ
السلام کا ثانی ہو۔
اور ثروت و ریاست میں
قارون یا فرعون کے ہم پلہ ہو۔
غلو ہر امر میں مذموم
ہے۔ ایک ہی شخص میں تمام صفات کا مجتمع ہونا شاذو نادر ہے۔ جن صفات کو جس درجہ میں
تم دوسروں میں ڈھونڈتے ہو تم کو جس شخص نے لڑکی دی تھی‘ جس کی بدولت آج اپنی لڑکی کے باپ بن کر یہ جولانیاں
دکھا رہے ہو‘ کیا اس شخص نے تمہارے لئے ایسی ہی تفتیش و تحقیق کی تھی۔ اگر وہ ایسا
کرتا تو تم کو عورت میسر نہ ہوتی۔ اس نے ایسا نہیں کیا۔ تو جب اس نے ایسا نہ کیا
تو تم نے یا تمہارے باپ نے دوسرے مسلمان بھائی کی بدخواہی کیوں کی؟ کہ باوجود
تمہارے اندر اوصاف کے پورے طور سے مجتمع نہ ہونے کے اس کی لڑکی پر نکاح کے ذریعے
قبضہ کر لیا ’’جو چیز تم اپنے لئے پسند کرتے ہو وہ دوسروں کے لئے کیوں نہیں پسند
کرتے‘‘ اس پر عمل کیوں نہیں کیا۔ دوسرے یہ کہ جب تم اپنی دختر (لڑکی) کے لئے ان
صفات کا شوہر تلاش کرتے ہو۔ انصاف کرو کہ تم نے جب اپنے لڑکے کیلئے کسی لڑکی کی
درخواست کی تھی یا کرنے کا خیال ہے۔ کیا اپنے صاحب زادہ میں بھی یہ صفات اسی درجہ
کی دیکھ لی ہیں یا دیکھنے کا ارادہ ہے۔
تیسرے یہ کہ جس طرح
لڑکوں میں بے شمار خوبیاں ڈھونڈی جاتی ہیں اگر دوسرا شخص تمہاری بیٹی میں اس سے
دسواں حصہ خوبیاں اور ہنر دیکھنے لگے تو میں یقین کرتا ہوں کہ تمام عمر ایک لڑکی
بھی نہ بیاہی جائے گی۔ غرض یہ عذر کہ رشتہ موقع کا (مناسب) نہیں آتا اکثر حالتوں میں
بے موقع ہوتا ہے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۳۰‘ ۳۱‘ جلد ۲)
No comments:
Post a Comment