اشک رواں نہیں ہیں ندامت کے پھول ہیں
روٹھے ہوئے بہار سے رحمت کے پھول ہیں
ہیں داغ ہائے دل کی شباہت لیے ہوئے
شاید یہی وہ باغ محبت کے پھول ہیں
ڈسنے لگی ہیں شاخ تمنا کی کونپلیں
رسوائیوں کے خار معیشت کے پھول ہیں
رقصاں ہیں رنگ رنگ خیابان زندگی
پنہاں کہانیوں میں حقیقت کے پھول ہیں
دیوانگان کاکل ساقی سے مانگیئے
وحشت کی وادیوں میں فراست کے پھول ہیں
ایوان گل فشاں کے مکینو ذرا سنو
ان جھونپڑوں میں بھی کہیں فطرت کے پھول ہیں
کہتے ہوئے سنے ہیں سخن آشنائے وقت
ساغر کے شعر بزم لطافت کے پھول ہیں
No comments:
Post a Comment