Saturday, 10 June 2017

"Tum Maray Pas Raho, Pas Mulaqat Rahay"A Beautiful Urdu Ghazal By Allama Semab Akbar Abadi

تم مِرے پاسِ رہو، پاسِ ملاقات رہے
نہ کرو بات کسی سے تو مِری بات رہے

ہو سرافرازِ یقیں، حدّ ِ تصّور سے گُزر
وہ بھی کیا عشق جو پابندِ خیالات رہے

میں نے آنکھوں سے نہ دیکھی سَحَرِشامِ فراق
شمع سے پہلے بُجھا ایک پہر رات رہے

ذہن ماؤف، دِل آزردہ، نگاہیں بے کیف
مر ہی جاؤں گا جو چندے یہی حالات رہے

دَیر میں آنے کی تکلیف تو کی ہے سیماب

یاد کعبے کی بھی اے قبلۂ حاجات رہے

" Ab Kia Batain Umar e Wafa Kun Kharab Ki " A Beautiful Urdu Ghazal By Allama Semab Akbar Abadi

اب کیا بتائیں عمرِ وفا کیوں خراب کی
نوحہ ہے زندگی کا کہانی شباب کی

 تم نے خبر نہ لی مِرے حالِ خراب کی
کالی ہوئیں فراق میں راتیں شباب کی

 تھی الوداعِ ہوشِ تجلّیِ مختصر
میرا تو کام کر گئی جنْبش نقاب کی

وہ میرے ساتھ ساتھ مُجسّم تِرا خیال
وہ جنگلوں میں سیر شبِ ماہتاب کی

 ممنُون ہوں تِری نگہِ بے نیاز کا
رُسوائیاں تو ہیں مِرے حالِ خراب کی

میں اپنی جلوہ گاہِ تصوّر سجاؤں گا
تصویر کھینچ دے کوئی اُن کے شباب کی

 دے دو غبارِ دل میں ذرا سی جگہ ہمیں
تربت بنائیں گے دلِ خانہ خراب کی

گھبرا کے جس سے چیخ اُٹھا عالَمِ وجُود
وہ چیز دل نے میرے لئے اِنتخاب کی

چمکیں تو خوفناک، گِریں تو حیات سوز
ساون کی بجلیاں ہیں نگاہیں عتاب کی

 سیماب زندگی کی ہے تاریخ ہر غزل

ہر شعر میں ہے ایک کہانی شباب کی

" Shayad Jagah Naseeb Ho Us Gul K Har Main " A Beautiful Urdu Ghazal By Allama Semab Akbar Abadi

شاید جگہ نصیب ہو اُس گُل کے ہار میں
میں پھُول بن کے آؤں گا، اب کی بہار میں

 خَلوَت خیالِ یار سے ہے انتظار میں
آئیں فرشتے لے کے اِجازت مزار میں

 ہم  کو تو جاگنا ہے ترے انتظار میں
آئی ہو جس کو نیند وہ سوئے مزار میں

 اے درد!  دل کو چھیڑ کے، پھر بار بار چھیڑ
ہے چھیڑ کا مزہ خَلِشِ بار بار میں

ڈرتا ہوں، یہ تڑپ کے لحد کو اُلٹ نہ دے
ہاتھوں سے دِل دبائے ہوئے ہُوں مزار میں

تم نے تو ہاتھ جور و سِتم سے اُٹھا لیا
اب کیا مزہ رہا سِتمِ روزگار میں

اے پردہ دار! اب تو نکل آ، کہ حشر ہے
دنیا کھڑی ہوئی ہے ترے انتظار میں

  عمرِ دراز، مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

 سیمابؔ پھول اُگیں لحدِ عندلیب سے

اتنی تو تازگی ہو، ہوائے بہار میں

Friday, 9 June 2017

A Beautiful List Of Urdu Poetries By Allama Semab Akbar Abadi

سیماب اکبرآبادی  (عاشق حسین) 

سیماب اکبر آبادی (1882 - 1951) اردو کے نامور اور قادرالکلام شاعر تھے۔ ان کا اصل نام عاشق حسین صدیقی تھا۔
سیماب آگرہ ، اتر پردیش ، میں پیدا ہوئے۔ انکے والد ، محمّد حسین صدیقی بھی شاعر اور حکیم امیرالدین اتتار اکبرآبادی کے شاگرد تھے اور ٹائمز آف انڈیا پریس میں ملازم تھے۔ سیماب نے فارسی اور عربی کی تعلیم جمال‌الدین سرحدی اور رشید احمد گنگولی سے حاصل کی۔ 1892 سے شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور 1898 میں مرزا خان داغ دہلوی کے شاگرد ہو گئے تھے۔ 1923 میں قصر الادب کی بنیاد رکھی اور پہلے"پیمانہ" اور بعد میں 1929 میں "تاج" اور 1930 میں "شاعر" شائع کرنا شروع کیے۔ پیمانہ 1932 میں بند ہو گیا تھا۔
سیماب کا پہلا مجموعہِ کلام "نیستاں" 1923 میں چھپا تھا۔ انکی لکھی 70 کتابوں میں 22 شعری مَجمُوعے ہیں جن میں " وہی منظوم " بھی شامل ہے جس کی اشاعت کی کوشش 1949 میں انکو پاکستان لے گئی جہاں کراچی شہر میں 1951 میں انکا انتقال ہوا۔ سیماب کے تقریبآً 370 شاگرد تھے جن میں راز چاندپوری ، ساغر نظامی ، ضیاء فتح آبادی، بسمل سیدی ، الطاف مشہدی اور شفا گوالیوری کے نام قابل ذکر ہیں
   

Rahain Gay Chal K Kaheen Aur Agar Yahan Na Rahay"A Beautiful Urdu Ghazal By Allama Semab Akbar Abadi

رہیں گے چل کے کہیں اور اگر یہاں نہ رہے
بَلا سے اپنی  جو آباد گُلِسْتان نہ رہے

 ہم ایک لمحہ بھی خوش زیرِ آسماں نہ رہے
غنیمت اِس کوسَمَجْھیے کہ جاوداں نہ رہے

 ہمیں تو خود چَمن آرائی کا سلیقہ ہے
جو ہم رہے توگُلِسْتاں میں باغباں نہ رہے

شباب نام ہے دل کی شگفتہ کاری کا
وہ کیا جوان رہے جس کا دل جواں نہ رہے

حرم میں، دَیروکلیسا میں، خانقاہوں میں
ہمارے عشق کے چرچے کہاں کہاں نہ رہے

 کبھی کبھی، رہی وابستگی قفس سے بھی
رہے چمن میں تو پابندِ آشیاں نہ رہے

 فضائے گل ہے نظر کش و مَن ہے دامن کش
کہاں رہے تِرا آوارہ سر، کہاں نہ رہے


بہار جن کے تبسّم میں مُسکراتی تھی
وہ گُلِسْتاں  وہ جوانانِ گُلِسْتاں نہ رہے

 خدا کے جاننے والے تو خیر کچھ تھے بھی
خدا کے ماننے والے بھی اب یہاں نہ رہے

 ہمیں قفس سے کریں یاد پھر چمن والے
جب اور کوئی ہوا خواہِ آشیاں نہ رہے

کِیا بھی سجدہ تو دل سے کِیا نظر سے کِیا
خدا کا شُکر کہ ہم بارِ آستاں نہ رہے

 ہے عصرِ نَو سے یہ اِک شرط انقلاب کے بعد
ہم اب رہیں جو زمیں پر تو آسماں نہ رہے

 برائے راست تعلّق تھا جن کا منزل سے
وہ راستے نہ رہے اب وہ کارواں نہ رہے

 ہَمِیں خرابِ ضعیفی نہیں ہوئے سیماب
ہمارے وقت کے اکثر حَسِیں جواں نہ رہے


٭٭٭
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...