سیماب اکبرآبادی (عاشق حسین)
سیماب اکبر آبادی (1882 - 1951) اردو کے نامور اور قادرالکلام شاعر تھے۔ ان کا اصل نام عاشق حسین صدیقی تھا۔
سیماب آگرہ ، اتر پردیش ، میں پیدا ہوئے۔ انکے والد ، محمّد حسین صدیقی بھی شاعر اور حکیم امیرالدین اتتار اکبرآبادی کے شاگرد تھے اور ٹائمز آف انڈیا پریس میں ملازم تھے۔ سیماب نے فارسی اور عربی کی تعلیم جمالالدین سرحدی اور رشید احمد گنگولی سے حاصل کی۔ 1892 سے شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور 1898 میں مرزا خان داغ دہلوی کے شاگرد ہو گئے تھے۔ 1923 میں قصر الادب کی بنیاد رکھی اور پہلے"پیمانہ" اور بعد میں 1929 میں "تاج" اور 1930 میں "شاعر" شائع کرنا شروع کیے۔ پیمانہ 1932 میں بند ہو گیا تھا۔
سیماب کا پہلا مجموعہِ کلام "نیستاں" 1923 میں چھپا تھا۔ انکی لکھی 70 کتابوں میں 22 شعری مَجمُوعے ہیں جن میں " وہی منظوم " بھی شامل ہے جس کی اشاعت کی کوشش 1949 میں انکو پاکستان لے گئی جہاں کراچی شہر میں 1951 میں انکا انتقال ہوا۔ سیماب کے تقریبآً 370 شاگرد تھے جن میں راز چاندپوری ، ساغر نظامی ، ضیاء فتح آبادی، بسمل سیدی ، الطاف مشہدی اور شفا گوالیوری کے نام قابل ذکر ہیں
خامشی بھی ناز سے خالی نہیں
تم نہ بولو ہم پکارے جائیں گے
تم مرے پاس رہو پاسِ ملاقات رہے
نہ کہو بات کسی سے تو مری بات رہے
وہ خود لئے بیٹھے تھے آغوشِ توجہ میں
بےہوش ہی اچھا تھا ناحق مجھے ہوش آیا
بدل گئیں وہ نگاہیں یہ حادثہ تھا اخیر
پھر اسکے بعد کوئی انقلاب ہو نہ سکا
تو بھی ہو سکتا ہے جانِ رنگ و بو میری طرح
پہلے پیدا کر چمن میں آبرو میری طرح
کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
مہینے اس خوابیدہ عالم کو بنایا کام کا
گرمیءِ محفل نتیجہ ہے مرے پیغام کا
صداءِ سور سے میں قبر میں نہ جاگوں گا
کسی سنی ہوئی آواز سے پکار مجھے
سیماب کو شگفتہ نہ دیکھا تمام عمر
کمبخت جب ملا ہمیں غم آشنا ملا
نہ تھا وہ بھید کہ دنیا مجھے سمجھ سکتی
میں خود بھی اپنے سمجھنے میں کامیاب نہ تھا
میخانۂِ سخن کا گدائے قدیم ہوں
ہر رنگ کی شراب پیالے میں ہے مرے
میں اس دنیا میں اے سیماب اک رازِ حقیقت تھا
سمجھنے کی طرح اہلِ جہاں مجھ کو کہاں سمجھے
دیکھتے کے دیکھتے دنیا سے میں اٹھ جاونگا
دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے
سیماب اکبرآبادی
No comments:
Post a Comment