
Parveen Shakir (Urdu: پروین شاکر) (November 24, 1952 – December 26, 1994) was an
Urdu poet, teacher and a civil servant of the Government of Pakistan.
Shakir started writing at an early
age and published her first volume of poetry, Khushbu (English: Fragrance)
(Urdu: خوشبو), to great acclaim, in 1976. She subsequently
published other volumes of poetry- all well-received - Sad-barg(English: Marsh
Marigold) (Urdu: صد برگ)
in 1980, Khud Kalami (English:
Soliloquy) (Urdu: خود
کلامی) and Inkar (English: Denial) (Urdu: انکار) in 1990, Kaf e Aina (English: The Mirror's Edge) (Urdu: کفِ آئینہ) besides a collection of her newspaper columns, titled Gosha-e-Chashm
(English: The Sight Corner) (Urdu:
گوشہ چشم), and was awarded one of Pakistan's
highest honours, the Pride of Performance for her outstanding contribution to
literature. The poetry books are collected in the volume Mah e Tamam (English:
Full Moon) (Urdu: ماہِ
تمام) with the exception of Kaf e Aina.
Here you go " " Beautiful Urdu Ghazal,poems& poetry by Parveen Shakir. I hope you will like it.
سماعتوں کی نوید
ہو—کہ
ہَوائیں خُوشبو کے گیت
لے کر
دریچہ گُل سے آ رہی ہیں
پروین شاکر
تتلیاں
فصیلِ شب عبور کر کے
میری کور کوکھ کے لیے
پروں میں رنگ ، آنکھ
میں کرن لیے
کلائیوں سے ہو کے اب
ہتھیلیوں تک آ گئیں
مگر
مری تمام اُنگلیاں کٹی
ہُوئی ہیں
پروین شاکر
پھر ڈسنے لگی ہیں
سانپ راتیں
برساتی ہیں آگ پھر
ہوائیں
پھیلا دے کسی شکستہ
تن پر
بادل کی طرح سے اپنی
بانہیں
پروین شاکر
موسم
چڑیا پُوری بھیگ چکی
ہے
اور درخت بھی پتّہ
پتّہ ٹپک رہا ہے
گھونسلا کب کا بکھر
چکا ہے
چڑیا پھر بھی چہک رہی
ہے
انگ انگ سے بول رہی
ہے
اس موسم میں بھیگتے
رہنا کتنا اچھا لگتا ہے
پروین شاکر
مورنی
بارش نے
جب سے مجھ کو پا زیب
پہنائی ہے
میں رقص میں ہوں
اور اتنی خوش ہوں
اپنے پاؤں کی بد رنگی
کو
دیکھ دیکھ کے بھول رہی
ہو
پَر پھیلائے
بھیگے ہُوئے جنگل میں
مسلسل ناچ رہی ہوں
پروین شاکر
مقدر
میں وہ لڑکی ہوں
جس کو پہلی رات
کوئی گھونگھٹ اُٹھا
کے یہ کہہ دے۔
میرا سب کُچھ ترا ہے
، دِل کے سوا
پروین شاکر
مشورہ
ننّھی لڑکی
ساحل کے اِتنے نزدیک
ریت سے اپنے گھر نہ
بنا
کوئی سرکش موج اِدھر
آئی ،تو
تیرے گھر کی بنیادیں
تک بہہ جائیں گی
اور پھر اُن کی یاد میں
تُو
ساری عُمر اُداس رہے
گی
پروین شاکر
مجبوری
ہوائیں
دستکوں میں میرا نام
لے رہی ہیں
میں ،کواڑ کیسے
کھولوں
میرے دونوں ہاتھ پُشت
کی طرف بندھے ہُوئے ہیں
لیکن
یہ جو دفعتاً اُدھر
سے
گلُ مہر کی شاخ کو
ہٹاکر
اُبھرا ہے اُفق پہ
چاند میرا
اس چاند کا حُسن تو
وہی ہے
پروین شاکر
گمان
میں کچی نیند میں ہوں
اور اپنے نیم خوابیدہ
تنفس میں اترتی
چاندنی کی چاپ سنتی
ہوں
گماں ہے
آج بھی شاید
میرے ماتھے پہ تیرے
لب
ستارے ثبت کرتے ہیں
پروین شاکر
گِلہ
اے خدا
میری آواز سے ساحری
چھین کر
تو نے سانپوں کی بستی
میں کیوں مجھ کو پیدا کیا
پروین شاکر
کیا کیا دکھ دل نے
پائے
کیا کیا دکھ دل نے
پائے
ننھی سی خوشی کے بدلے
ہاں کون سے غم نہ
کھائے
تھوڑی سی ہنسی کے
بدلے
زخموں کا کون شمار
کرے
یادوں کا کیسے حصار
کرے
اور جینا پھر سے عذاب
کرے
اس وقت کا کون حساب
کرے
وہ وقت جو تجھ بن بیت
گیا
پروین شاکر
کشف
ہونٹ بے بات ہنسے
زُلف بے وجہ کُھلی
خواب دکھلا کہ مجھے
نیند کس سمت چلی
خُوشبو لہرائی میرے
کان میں سرگوشی کی
اپنی شرمیلی ہنسی میں
نے سُنی
اور پھر جان گئی
میری آنکھوں میں تیرے
نام کا تارا چمکا
پروین شاکر
کتھارسس
میرے شانوں پہ سر رکھ
کر
آج
کسی کی یاد میں وہ جی
بھر کہ رویا
پروین شاکر
کتنی دیر تک
کتنی دیر تک
املتاس کے پیڑ کے نیچے
بیٹھ کر ہم نے باتیں
کیں
کچھ یاد نہیں
بس اتنا اندازہ ہے
چاند ہماری پشت سے ہو
کر
آنکھوں تک آپہنچا
پروین شاکر
کانچ کی سُرخ چوڑی
کانچ کی سُرخ چوڑی
میرے ہاتھ میں
آج ایسے کھنکنے لگی
جیسے کل رات شبنم سے
لکھی ہوئی
ترے ہاتھوں کی شوخیوں
کو
ہواؤں نے سَر دے دیا
ہو ۔۔۔
پروین شاکر
فاصلے
چند خط روز لِکھا
کرتے تھے
دُوسرے تیسرے ، تم
فون بھی کر لیتے تھے
اور اب یہ ، کہ تمھاری
خبریں
صرف اخبار سے مل پاتی
ہیں
پروین شاکر
نوحہ گر چُپ ہیں کہ
روئیں بھی تو کِس کو روئیں
کوئی اس فصلِ ہلاکت میں
سلامت بھی تو ہو
کون سا دل ہے کہ جس
کے لئے آنکھیں کھولیں
کوئی بِسمل کسی شب
خوں کی علامت بھی تو ہو
شُکر کی جا ہے کہ بے
نام و نسب کے چہرے
مسندِ عدل کی بخشش کے
سزاوار ہوئے
کتنی تکریم سے دفنائے
گئے سوختہ تن
کتنے اعزاز کے حامِل یہ
گنہگار ہوئے
یوں بھی اِس دور میں
جینے کا کِسے تھا یارا
بے نوا بازوئے قاتِل
سے گِلہ مند نہ ہوں
زندگی یوں بھی تو
مُفلِس کی قبَا تھی لیکن
دلفگاروں کے کفن میں
بھی تو پیوند نہ ہوں
ناوکِ ظِلّ الٰہی اجل
آہنگ سہی
شُکر کی جا ہے کہ
سَونے کی انی رکھتے ہیں
جاں گنوائی بھی تو کیا
مَدفن و مَرقد تو ملا
شاہ جم جاہ طبیعت تو
غنی رکھتے ہیں
پروین شاکر
نہ کوئی عہد، نہ پیمان
نہ وعدہ ایسا
نہ تیرا حُسن ہی ایسا
کوئی انگشت تراش
نہ میرے ہاتھ میں تاثیرِ
زلیخائی ہے
رقص گہ ہے یہ جہاں
اور نہ میں سِنڈریلا ہوں
نہ تُو شہزادہ ہے
ہم تو بس رزم گہِ ہستی
میں
دو مبارز دِل ہیں
اِس تعلق کا کوئی رنگ
اگر ہے تو حریفانہ ہے
ایک ہی تھال سے چُننی
ہے ہمیں نانِ جویں
ایک ہی سانپ کے منہ
سے ہمیں من چھیننا ہے
اور اس کشمکشِ رزق میں
موہوم کشائش کی کلید
جس قدر میری قناعت میں
ہے
اتنی تیری فیاضی میں
میں تیری چھاؤں میں
پروان چڑھوں
اپنی آنکھوں پہ تیرے
ہاتھ کا سایہ کر کے
تیرے ہمراہ میں سُرج
کی تمازت دیکھوں
اس سے آگے نہیں سوچا
دل نے
پھر بھی احوال یہ ہے
اِک بھروسہ ہے کہ دل
سبز کئے رکھتا ہے
ایک دھڑکا ہے کہ خوں
سرد کیئے رہتا ہے
پروین شاکر
گھنے درختوں کی سبز
شاخوں پہ کِھلنے والے حسیں شگوفے
سُنا ہے
تیرے گلاب چہرے کو
برفباری کی رُت نے نرگس بنا دیا ہے
سوننھی کونپل!اُداس
مت ہو
کہ تیرے رُخسار کی
شفق کو
کبھی بھی دستِ شبِ
زمستاں نہ چُھوئے پائے گا
اِس شفق میں محبتوں
کا لُہو رواں ہے
عظیم گہری محبتوں کے
صدف میں
اَبرِ بہار کی پہلی
سانس ہے تو
جو ان جسموں کی مشترک
دھڑکنوں کا پہلا جمیل نغمہ
جو ان راتوں کی کوکھ
سے پھوٹتا ہُوا پہلا چاند ہے تُو
زمین اور آسماں کے
سنگم پہ
زندگی کا نیا اُفق
تُو
سواے مرے اَدھ کِھلے
شگوفے
تمام سچی محبتوں کے
تمام گیتوں کی طرح تُو بھی اَمر رہے گا
وہ لمحہ آواز دے رہا
ہے
جب ایسی ویران
شاخساروں کے بے نمو جسم پر نئی کونپلیں اُگیں گی
شجر شجر کی برہنگی
سبز پوش ہو گی
وہ ساعتیں راستے میں
ہیں
جبکہ تیرے کم سِن بدن
کی کچّی مہک کو
دستِ بہار کا لمس
وصفِ گویائی دے سکے
گا،
یہ زرد رُت جلد بِیت
جائے گی
سبز موسم قریب تر ہے
پروین شاکر
وہ میری ہم سبق
زمین پر جو ایک آسمانی
رُوح کی طرح سفر میں ہے
سفید پیرہن،گلے میں
نقرئی صلیب
ہونٹ___مستقل دُعا!
میں اُس کو ایسے دیکھتی
تھی جیسے ذرہ آفتاب کی طرف نظر اُٹھائے! پر____یہ
کل کا ذکر ہے
کہ جب میں اپنے
بازؤوں پہ سر رکھے
ترے لیے بہت اُداس تھی
تو وہ مرے قریب آئی
اور مجھ سے کیٹس کے
لکھے ہُوئے کسی خیال تک رسائی چاہنے لگی
سو مَیں نے اُس کو
شاعرِ جمال کی شریک خواب،فینی،کا پتہ دیا
مگر وہ میری بات سُن
کے سادگی سے بولی:
پیار کس کو کہتے ہیں ؟
میں لمحہ بھر کو گُنگ
رہ گئی
دماغ سوچنے لگا
یہ کتنی بدنصیب ہے
جو چاہتوں کی لذتوں
سے بے خبر ہے
میں نے اُس کی سمت
پھر نگاہ کی
اور اُس سمے
مُجھے مری محبیتں
تمام تر دُکھوں کے ساتھ یاد آ گئیں
محبتوں کے دُکھ عظیم
دُکھ
مُجھے لگا
کہ جیسے ذرہ آفتاب کے
مقابلے میں بڑھ گیا
پروین شاکر
تم مجھے گُڑیا کہتے
ہو
ٹھیک ہی کہتے ہو ۔۔۔
کھیلنے والے سب
ہاتھوں کو میں گڑیا ہی لگتی ہوں
جو پہنا دو، مجھ پہ
سجے گا
میرا کوئی رنگ نہیں
جس بّچے کے ہاتھ تھما
دو
میری کسی سے جنگ نہیں
سوچتی جاگتی آنکھیں میری
جب چاہے بینائی لے لو
کُوک بھرو اور باتیں
سن لو
یاں میری گویائی لے
لو
مانگ بھرو، سیندور
لگاؤ
پیار کرو، آنکھوں میں
بساؤ
اور جب دل بھر جائے
تو
دل سے اُٹھا کہ طاق
پہ رکھ دو
تم مجھ کو گڑیا کہتے
ہو
ٹھیک ہی کہتے ہو
پروین شاکر
اب وہ کہتے ہیں تم
کوئی چارہ کرو
جب کوئی عہد و پیماں
سلامت نہیں
اب کسی کنج میں بے
اماں شہر کی
کوئی دل کوئی داماں
سلامت نہیں
تم نے دیکھا ہے سر
سبز پیڑوں پہ اب
سارے برگ و ثمر خار و
خس ہو گئے
اب کہاں خوبصورت
پرندوں کی رت
جو نشیمن تھے اب وہ
قفس ہو گئے
صحن گلزار خاشاک کا
ڈھیر
اب درختوں کے تن پر
قبائیں کہاں
سرو و شمشاد سے قمریاں
اڑ گئیں
شاخ زیتون پر فاختائیں
کہاں
شیخ منبر پہ نا معتبر
ہو چکا
رند بدنام کوئے
خرابات میں
فاصلہ ہو تو ہو فرق
کچھ بھی نہیں
فتوہ دیں میں ہو اور
کفر کی بات میں
اب تو سب رازداں
ہمنوا نامہ بر
کوئے جانا ں کے سب
آشنا جا چکے
کوئی زندہ گواہی بچی
ہی نہیں
سب گنہگار سب پارسا
جا چکے
اب کوئی کس طرح قم بہ
اذنی کہے
اب کہ جب شہر کا شہر
سنسان ہے
حرف عیسیٰ نہ صور
اسرافیل ہے
حشر کا دن قیامت کا میدان
ہے
مرگ انبوہ بھی جشن
ساماں نہیں
اب کوئی قتل گاہوں میں
جائے تو کیا
کب سے توقیر لالہ
قبائی گئی
کوئی اپنے لہو میں
نہائے تو کیا
پروین شاکر
رُت بدلی تو بھنوروں
نے تتلی سے کہا
آج سے تم آزاد ہو
پروازوں کی ساری سمتیں
تُمھارے نام ہُوئیں
جاؤ
جنگل کی مغرور ہوا کے
ساتھ اُڑو
بادل کے ہمراہ ستارے
چُھو آؤ
خوشبو کے بازو تھامو،
اور رقص کرو
رقص کرو
کہ اس موسم کے سُورج کی
کِرنوں کا تاج تُمھارے سر ہے
لہراؤ
کہ ان راتوں کا چاند،
تمھاری پیشانی پر اپنے ہاتھ سے دُعا لکھے گا
گاؤ
ان لمحوں کی ہوائیں
تم کو ، تمھارے گیتوں پر سنگیت دیں گی
پتّے کڑے بجائیں گے
اور پُھولوں کے
ہاتھوں میں دف ہو گا!
تتلی ، معصومانہ حیرت
سے سرشار
سیہ شاخوں کے حلقے سے
نکلی
صدیوں کے جکڑے ہُوئے
ریشم پَر پھیلائےِ_اور اُڑنے لگی
کُھلی فضا کا ذائقہ
چکھا
نرم ہَوا کا گیت سُنا
اَن دیکھے کہساروں کی
قامت ناپی
روشنیوں کا لمس پیا
خوشبو کے ہر رنگ کو
چُھو کر دیکھا
لیکن رنگ ، ہَوا کا
وجدان ادھورا تھا
کہ رقص کا موسم ٹھہر
گیا
رُت بدلی
اور سُورج کی کِرنون
کا تاج پگھلنے لگا
چاند کے ہاتھ، دُعا
کے حرف ہی بُھول گئے
ہَوا کے لب برفیلےسموں
میں نیلے پڑکر اپنی صدائیں کھو بیٹھے
پتّوں کی بانہوں کے
سُر بے رنگ ہُوئے
اور تنہا رہ گئے
پُھولوں کے ہاتھ
برف کی لہر کے ہاتھوں
، تتلی کو لَوٹ آنے کا پیغام گیا
بھنورے شبنم کی زنجیریں
لے کر دوڑے
اور بے چین پَروں میں
ان چکھی پروازوں کی آشفتہ پیاس جلا دی
اپنے کالے ناخونوں سے
تتلی کے پَر نوچ کے
بولے
احمق لڑکی
گھر واپس آ جاؤ
ناٹک ختم ہُوا
(خواتین کا عالمی
سال)
پروین شاکر
من و تو
معاف کر مری مستی
خدائے عز و جل
کہ میرے ہاتھ میں
ساغر ہے میرے لب پہ غزل
کریم ہے تو مری
لغزشوں کو پیار سے دیکھ
رحیم ہے تو سزا و جزا
کی حد سے نکل
ہے دوستی تو مجھے اذن
میزبانی دے
تو آسمان سے اتر اور
مری زمین پہ چل
بہت عزیز ہے مجھ کو یہ
خاکداں میرا
یہ کوہسار یہ قلزم یہ
دشت یہ دلدل
مرے جہاں میں زمان و
مکان و لیل و نہار
ترے جہاں میں ازل ہے
ابد ہے نہ آج نہ کل
تو اپنے عرش پہ شاداں
ہے سو خوشی تیری
میں اپنے فرش پہ
نازاں ہوں اے نگار ازل
مجھے نہ جنت گم گشتہ
کی بشارت دے
کہ مجھ کو یاد ابھی
تک ہے ہجرت اول
ترے کرم سے یہاں بھی
مجھے میسر ہے
جو زاہدوں کی عبادت میں
ڈالتا ہے خلل
وہ تو کہ عقدہ کشا و
مسب اللا سباب
یہ میں کہ آپ معمہ
ہوں آپ اپنا ہی حل
میں آپ اپنا ہی ہابیل
اپنا ہی قابیل
مری ہی ذات ہے مقتول
و قاتل و مقتل
برس برس کی طرح تھا
نفس نفس میرا
صدی صدی کی طرح کاٹتا
رہا پل پل
ترا وجود ہے لاریب
اشرف و اعلیٰ
جو سچ کہوں تو نہیں میں
بھی ارذل و اسفل
یہ واقعہ ہے کہ شاعر
وہ دیکھ سکتا ہے
رہے جو تیرے فرشتوں کی
آنکھ سے اوجھل
یہی قلم ہے جو دکھ کی
رتوں میں بخشتا ہے
دلوں کو پیار کا مرہم
سکون کا صندل
یہی قلم ہے کہ جس کے
ہنر سے نکلے ہیں
رہ حیات کے خم ہوں کہ
زلف یار کے بل
یہی قلم ہے کہ جس کی
عطا سے مجھ کو ملے
یہ چاہتوں کے شگوفے
محبتوں کے کنول
تمام سینہ فگاروں کو یاد
میرے سخن
ہر ایک غیرت مریم کے
لب پہ میری غزل
اسی نے سہل کئے مجھ
پہ زندگی کے عذاب
وہ عہد سنگ زنی تھا
کہ دور تیغ اجل
اسی نے مجھ کو سجھائی
ہے راہ اہل صفا
اسی نے مجھ سے کہا ہے
پل صراط پہ چل
اسی نے مجھ چٹانوں کے
حوصلے بخشے
وہ کربلائے فنا تھی
کہ کار گاہ جدل
اسی نے مجھ سے کہا
اسم اہل صدق امر
اسی نے مجھ سے کہا سچ
کا فیصلہ ہے اٹل
اسی کے فیض سے آتش
کدے ہوئے گلزار
اسی کے لطف سے ہر زشت
بن گیا اجمل
اسی نے مجھ سے کہا جو
ملا بہت کچھ ہے
اسی نے مجھ سے کہا جو
نہیں ہے ہاتھ نہ مل
اسی نے مجھ سے قناعت
کا بوریا بخشا
اسی کے ہاتھ سے دست
دراز طمع ہے شل
اسی نے مجھ سے کہا بیعتِ
یزید نہ کر
اسی نے مجھ سے کہا
مسلک حسین پہ چل
اسی نے مجھ سے کہا زہر
کا پیالہ اٹھا
اسی نے مجھ سے کہا،
جو کہا ہے اس سے نہ ٹل
اسی نے مجھ سے کہا
عاجزی سے مات نہ کھا
اسی نے مجھ سے کہا
مصلحت کی چال نہ چل
اسی نے مجھ سے کہا غیرت
سخن کو نہ بیچ
کہ خون دل کے شرف کو
نہ اشرفی سے بدل
اسی نے مجھ کو عنایت
کیا ید بیضا
اسی نے مجھ سے کہا
سحر سامری سے نکل
اذیتوں میں بھی بخشی
مجھے وہ نعمت صبر
کہ میرے دل میں گرہ
ہے نہ ماتھے پہ بل
تری عطا کے سبب یا میری
انا کے سبب
کسی دعا کا ہے موقع
نہ التجا کا محل
کچھ اور دیر ابھی
حسرت وصال میں رہ
کچھ اور دیر آتش فراق
میں جل
سو تجھ سا ہے کوئی
خالق نہ مجھ سی ہے مخلوق
نہ کوئی تیرا ہی ثانی
نہ میرا کوئی بدل
فراز تو بھی جنوں میں
کدھر گیا ہے نکل
ترا دیار محبت تری
نگار غزل
پروین شاکر
مفاہمت
زندگی کے لیے
اب تمھارا رویہ
،اچانک بہت صلح جُو ہو گیا ہے
سمندر کی سرکش ہواؤں کو
جُوئے شبستاں کی
آہستہ گامی مبارک
یہ اچھا شگن ہے
ہوا کے مقابل
اگر پُھول آئے
تو پھر پنکھڑی پنکھڑی
اُجلے بادل کے خوابوں
کی صُورت بِکھر جائے گی
سو ایسے میں ،جھکنے میں
ہی خیر ہے
بارشِ سنگ میں
خواب کے شیش محل کو
کب تک بچائے رکھیں
اِتنے ہاتھوں میں
پتھر ہیں
کوئی تو لگ جائے گا
اور پھر
گُھپ اندھیرے میں کب
تک نظر کرچیاں ان کی ڈھونڈے
کیا یہ بہتر نہ ہو گا
کہ ایسی قیامت سے
پہلے ہی
ان شیش محلوں کو ہم
مصلحت کی چمکتی ہوئی
ریت میں دفن کر دیں
اور پھر خواب بُنتی
ہُوئی آنکھ سے معذرت کر لیں
سو تم نے بھی اب
ایک ہاری ہُوئی قوم
کے رہنما کی طرح
اپنے ہتھیار دُشمن کے
قدموں میں رکھ کر
نئی دوستی کا لرزتا
ہُوا ہاتھ اس کی طرف پھر بڑھایا ہے
اور میری سمجھ میں نہیں
آ رہا ہے
کہ ہتھیار دینے کی اس
رسم میں
کیا کروں
تمھاری چمکدار
،متروکہ تلوارکو
بڑھ کے چُوموں
کہ اپنے گلے پر رکھوں
؟
پروین شاکر
معبود
بہت حسین ہیں تیری عقیدتوں
کے گلاب
حسین تر ہے مگر ہر
گلِ خیال ترا
ہم ایک درد کے رشتے میں
منسلک دونوں
تجھے عزیز مرا فن
مجھے جما ل ترا
مگر تجھے نہیں معلوم
قربتوں کے الم
تری نگاہ مجھے فاصلوں
سے چاہتی ہے
تجھے خبر نہیں شاید
کہ خلوتوں میں مری
لہو اگلتی ہوئی زندگی
کراہتی ہے
تجھے خبر نہیں شاید
کہ ہم وہاں ہیں جہاں
یہ فن نہیں ہے اذیت
ہے زندگی بھر کی
یہاں گلوئے جنوں پر
کمند پڑتی ہے
یہاں قلم کی زباں پر
ہے نوک خنجر کی
پروین شاکر
مشترکہ دُشمن کی بیٹی
ننھے سے اک ریستوران
کے اندر
میں اور میری نیشنلسٹ
کولیگز
کیٹس کی نظموں جیسے
دل آویز دھند لکے میں بیٹھی
سُوپ کے پیالے سے
اُٹھتی ، خوش لمس مہک کو
تن کی سیرابی میں
بدلتا دیکھ رہی تھیں
باتیں ’’ہوا نہیں پڑھ
سکتی‘‘، تاج محل، میسور کے ریشم
اور بنارس کی ساری کے
ذکر سے جھِلمل کرتی
پاک و ہند سیاست تک آ
نکلیں
پینسٹھ اُس کے بعد
اکہتّر جنگی قیدی
امرتسر کا ٹی وی
پاکستان کلچر__محاذِ
نو__خطرے کی گھنٹی۔۔
میری جوشیلی کولیگز
اس حملے پر بہت خفا
تھیں
میں نے کُچھ کہنا
چاہا تو
اُن کے منہ یوں بگڑ
گئے تھے
جیسے سُوپ کے بدلے
اُنھیں کونین کا رس پینے کو ملا ہو
ریستوران کے مالک کی
ہنس مُکھ بیوی بھی
میری طرف شاکی نظروں
سے دیکھ رہی تھی
(شاید سنہ باسٹھ کا
کوئی تِیر ابھی تک اُس کے دل میں ترازو تھا!)
ریستوران کے نروز میں
جیسے
ہائی بلڈ پریشر انساں
کے جسم کی جیسی جھلاّہٹ در آئی تھی
یہ کیفیت کچھ لمحے
رہتی
تو ہمارے ذہنوں کی شریانیں
پھٹ جاتیں
لیکن اُس پل ،
آرکسٹراخاموش ہُوا
اور لتا کی رس ٹپکاتی،
شہد آگیں آواز ، کچھ ایسے اُبھری
جیسے حبس زدہ کمرے میں
دریا کے رُخ والی
کھڑکی کھلنے لگی ہو
میں نے دیکھا
جسموں اور چہروں کے
تناؤ پر
ان دیکھے ہاتھوں کی
ٹھندک
پیار کی شبنم چھڑک رہی
تھی
مسخ شدہ چہرے جیسے
پھر سنور رہے تھے
میری نیشنلسٹ کولیگز
ہاتھوں کے پیالوں میں
اپنی ٹھوڑیاں رکھے
ساکت و جامد بیٹھی تھیں
گیت کا جادو بول رہا
تھا
میز کے نیچے
ریستوران کے مالک کی
ہنس مُکھ بیوی کے
نرم گلابی پاؤں بھی
گیت کی ہمراہی میں
تھرک رہے تھے
مشترکہ دشمن کی بیٹی
مشترکہ محبوب کی صورت
اُجلے ریشم لہجوں کی
بانہیں پھیلائے
ہمیں سمیٹے
ناچ رہی تھی
پروین شاکر
مسئلہ
’’پتھر کی زباں ‘‘ کی
شاعرہ نے
اک محفلِ شعر و شاعری
میں
جب نظم سُناتے مُجھ
کو دیکھا
کُچھ سوچ کے دل میں
،مُسکرائی
جب میز پر ہم مِلے تو
اُس نے
بڑھ کر مرے ہاتھ ایسے
تھامے
جیسے مجھے کھوجتی ہو
کب سے
پھر مجھ سے کہا
کہ۔۔۔۔آج،پروین
جب شعر سناتے تم کو دیکھا
میں خود کو بہت یہ یاد
آئی
وہ وقت،کہ جب تمھاری
صُورت
میں بھی یونہی شعر
کہہ رہی تھی
لکھتی تھی اِس طرح کی
نظمیں
پر اب تو وہ ساری نظمیں
،غزلیں
گزرے ہُوئے خواب کی ہیں
باتیں
میں سب کو ڈِس اون کر
چکی ہوں
’’پتھر کی زباں ‘‘کی
شاعرہ کے
چنبیلی سے نرم ہاتھ
تھامے
’’خوشبو‘‘کی سفیر
سوچتی تھی
در پیش ہواؤں کے سفر
میں
پل پل کی رفیقِ
راہ۔۔میرے
اندر کی یہ سادہ لوح
ایلس
حیرت کی جمیل وادیوں
سے
وحشت کے مہیب جنگلوں
میں
آئے گی۔۔۔۔تو اُس کا
پُھول لہجہ
کیا جب بھی صبا نفس
رہے گا!؟
وہ خود کو ڈس اون
کرسکے گی!؟
پروین شاکر
مسفٹ
کبھی کبھی میں سوچتی
ہوں
مجھ میں لوگوں کو خوش
رکھنے کا ملکہ
اتنا کم کیوں ہے
کچھ لفظوں سے۔کچھ میرے
لہجے سے خفا ہیں
پہلے میری ماں میری
مصروفیت سے
نالاں رہتی تھی
اب یہی گلہ مجھ سے میرے
بیٹے کو ہے
رزق کی اندھی دوڑ میں
رشتے کتنے پیچھے رہ جاتے ہیں
جبکہ صورتِ حال تو یہ
ہے
میرا گھر میرے عورت
ہونے کی
مجبوری کا پورا لطف
اٹھاتا ہے
ہر صبح میرے شانوں پر
زمہ داری کا بوجھا لیکن
پہلے سے بھاری ہوتا
ہے
پھر بھی میری پشت پہ
نا اہلی کا کوب
روز بروز نمایاں ہوتا
جاتا ہے
پھر میرا دفتر ہے
جہاں تقرر کی پہلی ہی
شرط کے طور پہ
خود داری کا استعفی
دائر کرنا تھا
میں پتھر بنجر زمینوں
میں پھول اگانے کی کوشش کرتی ہوں
کبھی ہریالی دکھ جاتی
ہے
ورنہ
پتھر
بارش سے اکثر ناراض ہی
رہتے ہیں
مرا قبیلہ
میرے حرف میں روشنی
ڈھونڈ نکالتا ہے
لیکن مجھ کو
اچھی طرح معلوم ہے
کس کی نظریں لفظ پہ ہیں
اور کس کی خالق پر
سارے دائرے میرے
پاووءں سے چھوٹے ہیں
لیکن وقت کا وحشی ناچ
کسی مقام نہیں رکتا
رقص کی لے ہر لمحہ تیز
ہوئی جاتی ہے
یا تو میں کچھ اور
ہوں
یا پھر یہ میرا سیارہ
نہیں ہے۔۔۔
پروین شاکر
مری دعا ترے رخشِ صبا
خرام کے نام
مری دُعا ترے رخشِ
صبا خرام کے نام
کہ میں نے اپنی محبت
سپرد کی ہے تجھے
سو دیکھ!میری امانت
سنبھال کے رکھنا
اسے بہار کی نرماہٹوں
نے پالا ہے
سو اس کو گرم ہوا سے
بہت بچا رکھنا
یہ گُل عذار نہیں
آشنائے سختی گل
یہ ساتھ ہو تو بہت
احتیاط سے چلنا
مزاج اس کا ہَواؤں کی
طرح سرکش ہے
سو اس کی جنبشِ ابرو
کو دیکھتے رہنا
نہیں ، یہ سُننے کا
عادی نہیں رہا ہے کبھی
سو اس کی بات ، وہ کیسی
ہو، مانتے رہنا
اطاعت اس کی بہر گام
اَب ہے تیرا کام
ہَوا کے ساتھ اُسے یہ
پیام بھی پہنچے
کہ خوش نصیب ہے تو اس
کا ہمسفر ٹھہرا
میں تیرہ بخت تھی، اس
سے بچھڑ گئی کب کی
بھٹک رہی ہوں گھنے
جنگل میں اب تنہا
تو اس کے لمس سے ہر
روز زندگی پائے
میں اُس کے ہجر میں
ہر رات لمسِ مرگ چکھوں
ترے گلے میں وہ ہر
روز باہیں ڈالتا ہے
مرے بدن کو وہ حلقہ
مگر نصیب نہیں
وہ تیرے جسم سے کتنا
قریب ہوتا ہے
مگر میں اُس کے بدن کی
مہک کہاں ڈھونڈوں
کہ اُس کے شہر کی
پاگل ہوائیںِ__ میرے گھر
نجانے کون سی گلیوں
سے ہوکے آتی ہے
کہ وہ مہک کہیں رستے
میں چھوٹ جاتی ہے
اُسی کی یاد میں ہوتی
ہے اب تو صبح وشام
ہَوا کے ہاتھ اُسے یہ
پیام بھی پہنچے
کہ تیری عُمر خُدائے
ازل دراز کرے
جو خواب بھی تری
آنکھوں میں ہو،وہ پورا ہو
کہ تیرے ساتھ نے اُس
کو بہت خوشی دی ہے
وہ اپنے سارے رفیقوں
میں سربلند ہُوا
شکستہ دل تھا مگر آج
ارجمند ہُوا
غریبِ شہر کو جینے کا
آسرا تو دیا
بہت اُداس تھا، تُو
نے اُسے ہنسا تو دیا
(میں کس زباں میں
،بتا،تجھ کو شکریہ لکھوں )
دُعا یہ ہے کہ تجھے
ہر خوشی میسر ہو
اِسی طرح سے کبھی تو
بھی سر اُٹھا کے چلے
کبھی تجھے بھی کوئی
بھیجے تہنیت کا پیام
ہَوا کے ساتھ اُسے یہ
پیام بھی پہنچے
کہ اپنے آقا کے ہمراہ
سیر کو نکلے
تواسپِ تازی،کسی دِن
زقند ایسی بھرے
کہ اُڑ کے میرے نگر،میرے
شہر آ پہنچے
تمام عُمر دعائیں رہیں
گی اُس کے نام
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment