Monday, 17 July 2017

پروين شاكر کی بہترین شاعری، اشعار، نظمیں غزليں Ghazails,Nazaims and beautiful urdu poetry by parveen shakir

Parveen Shakir (Urdu: پروین شاکر) (November 24, 1952 – December 26, 1994) was an Urdu poet, teacher and a civil servant of the Government of Pakistan.

Shakir started writing at an early age and published her first volume of poetry, Khushbu (English: Fragrance) (Urdu: خوشبو), to great acclaim, in 1976. She subsequently published other volumes of poetry- all well-received - Sad-barg(English: Marsh Marigold) (Urdu: صد برگ) in 1980, Khud Kalami (English: Soliloquy) (Urdu: خود کلامی) and Inkar (English: Denial) (Urdu: انکار) in 1990, Kaf e Aina (English: The Mirror's Edge) (Urdu: کفِ آئینہ) besides a collection of her newspaper columns, titled Gosha-e-Chashm (English: The Sight Corner) (Urdu: گوشہ چشم), and was awarded one of Pakistan's highest honours, the Pride of Performance for her outstanding contribution to literature. The poetry books are collected in the volume Mah e Tamam (English: Full Moon) (Urdu: ماہِ تمام) with the exception of Kaf e Aina.
شہر آشوب

اپنی بود و باش نہ پُوچھو
ہم سب بے توقیر ہوئے

کون گریباں چاک نہیں ہے
ہم ہوئے تم ہوئے میر ہوئے

سہمی سہمی دیواروں میں
سایوں جیسے رہتے ہیں

اس گھر میں آسیب بسا ہے
عامل کامل کہتے ہیں

دیکھنے والوں نے دیکھا ہے
اک شب جب شب خون پڑا

گلیوں میں بارود کی بُو تھی
کلیوں پر سب خون پڑا

اب کے غیر نہیں تھا کوئی
گھر والے دشمن نکلے

جن کو برسوں دودھ پلایا
ان ناگوں کے پھن نکلے

رکھوالوں کی نیت بدلی
گھر کے مالک بن بیٹھے

جو غاصب تھے محسن کُش تھے
صوفی سالک بن بیٹھے

جو آواز جہاں سے اُٹھی
اس پر تیر تبر برسے

ایسے ہونٹ سلے لوگوں کے
سرگوشی کو بھی ترسے

گلی گلی میں بندی خانے
چوک چوک میں مقتل ہیں

جلادوں سے بھی بڑھ چڑھ کر
منصف وحشی پاگل ہیں

کتنے بے گنہوں کے گلے پر
روز کمندیں پڑتی ہیں

بُوڑھے بچے گھروں سے غائب
بیبیاں جیل میں سڑتی ہیں

اس کے ناخن کھینچ لئے ہیں
اس کے بدن کو داغ دیا

گھر گھر قبریں در در لاشیں
بجھا ہر ایک چراغ دیا

ماؤں کے ہونٹوں پر ہیں نوحے
اور بہنیں کُرلاتی ہیں

رات کی تاریکی میں ہوائیں
کیسے سندیسے لاتی ہیں

قاتل اور درباری اس کے
اپنی ہٹ پر قائم ہیں

ہم سب چور لُٹیرے ڈاکو
ہم سب کے سب مجرم ہیں

ہمیں میں کوئی صبح سویرے
کھیت میں مُردہ پایا گیا

ہمیں سا دہشت گرد تھا کوئی
چھُپ کے جسے دفنایا گیا

سارا شہر ہے مُردہ خانہ
کون اس بھید کو جانے گا

ہم سارے لا وارث لاشیں
کون ہمیں پہچانے گا

پروین شاکر


شکست

بارہا مجھ سے کہا دل نے کہ اے شعبدہ گر
تو کہ الفاظ سے اصنام گری کرتا ہے

کبھی اس حسنِ دل آرا کی بھی تصویر بنا
جو تری سوچ کے خاکوں میں لہو بھرتا ہے

بارہا دل نے یہ آواز سنی اور چاہا
مان لوں مجھ سے جو وجدان میرا کہتا ہے

لیکن اس عجز سے ہارا میرے فن کا جادو
چاند کو چاند سے بڑھ کر کوئی کیا کہتا ہے

پروین شاکر


شرط


ترا کہنا ہے
’’مجھ کو خالقِ کون و مکاں نے

کِتنی ڈھیروں نعمتیں دی ہیں
مری آنکھوں میں گہری شام کا دامن کشاں جادو

مری باتوں میں اُجلے موسموں کی گُل فشاں خوشبو
مرے لہجے کی نرمی موجۂ گل نے تراشی ہے

مرے الفاظ پر قوسِ قزح کی رنگ پاشی ہے
مرے ہونٹوں میں ڈیزی کے گلابی پُھولوں کی رنگت

مرے رُخسار پر گلنار شاموں کی جواں حِدّت
مرے ہاتھوں میں پنکھڑیوں کی شبنم لمس نرمی ہے

مرے بالوں میں برساتوں کی راتیں اپنا رستہ بُھول جاتی ہیں
میں جب دھیمے سُروں میں گیت گاتی ہوں

تو ساحل کی ہوائیں
اَدھ کھلے ہونٹوں میں ،پیاسے گیت لے کر

سایہ گُل میں سمٹ کر بیٹھ جاتی ہیں
مرا فن سوچ کو تصویر دیتا ہے

میں حرفوں کو نیا چہرہ
تو چہروں کو حروفِ نوکا رشتہ نذر کرتی ہوں
زباں تخلیق کرتی ہوں ۔‘‘
ترا کہنا مجھے تسلیم ہے
میں مانتی ہوں

اُس نے میری ذات کو بے حد نوازا ہے
خدائے برگ و گل کے سامنے

میں بھی دُعا میں ہوں ،سراپا شکر ہوں
اُس نے مجھے اِتنا بہت کُچھ دے دیا، لیکن
تجھے دے دے تو میں جانوں

پروین شاکر

سمندر کی بیٹی

وسعتوں سے سدا اُس کا ناتا رہا تھا
کُھلے آسمانوں
کُھلے پانیوں

اور کُھلے بازؤوں سے ہمیشہ محبت رہی تھی
ہَوا،آگ،پانی،کرن اور خوشبو

وہ سارے عناصر جو پھیلیں تو ہر دو جہاں اپنی بانہوں میں لے لیں
سد ا اُس کے ساتھی رہے تھے

وہ جنگل کی اَلھڑ ہوا کی طرح راستوں کے تعین سے آزاد تھی
وہ تو تخلیقِ فطرت تھی

پر خُوبصورت سے شوکیس میں قید کر دی گئی تھی
قفس رنگ ماحول کے حبس میں سانس روکے ہُوئے تھی

کہ اِک دم جو تازہ ہَوا کی طرح
اِک نویدِ سفر آئی۔تو

ایک لمحے کو آزاد ہونے کی وحشی تمنا میں ۔وہ
ایک بچے کی صُورت مچلنے لگی

شہر سے دُور
ماں کی محبت کی مانند

بے لوث،بے انتہا مہرباں دوست اُس کے لیے منتظر تھا
نرم موجیں کُھلے بازؤوں اس کی جانب بڑھیں

اور وہ بھی ہوا کی طرح بھاگتی ہی گئی
اور پھر چند لمحوں میں دُنیا نے دیکھا
سمندر کی بیٹی سمندر کی بانہوں میں سمٹی ہُوئی تھی

پروین شاکر

سُکھ کے موسم کا دُکھ

آنے والی رُتوں کے آنچل میں
کوئی ساعت سعید کیا ہو گی

رات کے وقت رنگ کیا پہنوں
روشنی کی کلید کیا ہو گی

جبکہ بادل کی اوٹ لازم ہو
جانتی ہوں ،کہ دید کیا ہو گی

زردموسم کی خشک ٹہنی سے
کونپلوں کی اُمید کیا ہو گی

چاند کے پاس بھی سُنانے کو
اب کے کوئی نوید کیا ہو گی

گُل نہ ہو گا تو جشنِ خوشبو کیا
تم نہ ہو گے تو عید کیا ہو گی

پروین شاکر

سفر

بارش کا اِکقطرہ آکر
میری پلک سے اُلجھا
اور آنکھوں میں ڈُوب گیا

پروین شاکر


سرشاری

ہاں ، یہ موسم تو وہ ہے
کہ جس میں نظر چُپ رہے

اور بدن بات کرتا رہے
اُس کے ہاتھوں کے شبنم پیالوں میں

چہرہ میرا
پھول کی طرح ہلکورے لیتا رہے
پنکھڑی پنکھڑی

اُس کے بوسوں کی بارش میں
پیہم نِکھرتی رہے

زندگی اس جنوں خیز بارش کے شانوں پر سر کو رکھے
رقص کرتی رہے

پروین شاکر

سرِ شاخِ گُل

وہ سایہ دار شجر
جو مجھ سے دُور ، بہت دُور ہے، مگر اُس کی

لطیف چھاؤں
سجل، نرم چاندنی کی طرح
مرے وجود،مری شخصیت پہ چھائی ہے

وہ ماں کی بانہوں کی مانند مہرباں شاخیں
جو ہر عذاب میں مُجھ کو سمیٹ لیتی ہیں

وہ ایک مشفقِ دیرینہ کی دُعا کی طرح
شریر جھونکوں سے پتوں کی نرم سرگوشی

کلام کرنے کا لہجہ مُجھے سکھاتی ہے
وہ دوستوں کی حسیں مُسکراہٹوں کی طرح

شفق عذار،دھنک پیرہن شگوفے،جو
مُجھے زمیں سے محبت کا درس دیتے ہیں

اُداسیوں کی کسی جانگذار ساعت میں
میں اُس کی شاخ پہ سر رکھ کے جب بھی روئی ہوں

تو میری پلکوں نے محسوس کر لیا فوراً
بہت ہی نرم سی اِک پنکھڑی کا شیریں لمس

(نِمی تھی آنکھ میں لیکن مَیں مُسکرائی ہوں )

کڑی دھوپ ہے
تو پھر برگ برگ ہے شبنم

تپاں ہوں لہجے
تو پھر پُھول پُھول ہے ریشم

ہرے ہوں زخم
تو سب کونپلوں کا رَس مرہم!
وہ ایک خوشبو

جو میرے وجود کے اندر
صداقتوں کی طرح زینہ زینہ اُتری ہے

کرن کرن مری سوچوں میں جگمگاتی ہے
مُجھے قبول،کہ وجداں نہیں یہ چاند مرا یہ روشنی مجھے ادراک دے رہی ہے
مگر

وہ ایک جھونکا
جو اُس شہرِ گُل سے آیا تھا

اَب اُس کے ساتھ بہت دُور جاچکی ہُوں میں
میں ایک ننھی سی بچی ہوں ،اور خموشی سے

بس اُس کی اُنگلیاں تھامے،اور آنکھیں بند کیے
جہاں جہاں لیے جاتا ہے،جا رہی ہوں میں

وہ سایہ دار شجر
جو دن میں میرے لیے ماں کا نرم آنچل ہے
وہ رات میں ،مرے آنگن پہ ٹھہرنے والا

شفیق ،نرم زباں ،مہرباں بادل ہے
مرے دریچوں میں جب چاندنی نہیں آتی

جو بے چراغ کوئی شب اُترنے لگتی ہے
تو میری آنکھیں کرن کے شجر کو سوچتی ہیں

دبیز پردے نگاہوں سے ہٹنے لگتے ہیں
ہزار چاند ،سرِشاخ گُل اُبھرتے ہیں

پروین شاکر


سالگرہ

یہی وہ دن تھا
جب آج سے چار سال پہلے

اسی روش پر،بنفشی بیلوں کے نرم سائے میں ہم ملے تھے
وہ لمحہ جبکہ ہمارے جسموں کو اپنے ہونے کا

حیرت آمیز،راحت افزا،نشاطِ اثبات مل سکا تھا
ہماری رُوحوں نے اپنا اپنا ،نیا سنہری جنم لیا تھا
وہ ایک لمحہ

ہماری روحوں کو اپنے دستِ جمال سے چُھو رہا ہے اب تک نظر کو شاداب کر رہا ہے
بدن کو مہتاب کر رہا ہے
ہم اس کے مقروض ہو چکے ہیں

سو آؤ اب اس عظیم لمحے کے نام کوئی دُعا کریں ہم
اُٹھائیں ہاتھ

اور محبتوں کی تمام تر شدتوں سے چاہیں
کہ جب بھی چھبیس جون کا آفتاب نکلے
تو ہم اُسے ایک ساتھ دیکھیں

پروین شاکر

ساتھ

کتنی دیر تک
املتاس کے پیڑ کے نیچے

بیٹھ کے ہم نے باتیں کیں
کچھ یاد نہیں

بس اتنا اندازہ ہے
چاند ہماری پشت سے ہو کر
آنکھوں تک آ پہنچا

پروین شاکر

زود پشیماں

گہری بھوری آنکھوں والا اک شہزادہ
دور دیس سے

چمکیلے مشکی گھوڑے پر ہوا سے باتیں کرتا
جَگر جَگر کرتی تلوار سے جنگل کاٹتا

دروازے سے لپٹی بیلیں پرے ہٹاتا
جنگل کی بانہوں میں جکڑے محل کے ہاتھ چھڑاتا

جب اندر آیا تو دیکھا
شہزادی کے جسم کی ساری سوئیاں زنگ آلودہ تھیں
رستہ دیکھنے والی آنکھیں سارے شکوے بھول چکی تھیں

پروین شاکر


زمیں پہ جب کسی نئے وجُود نے جنم لیا


زمیں پہ جب کسی نئے وجود نے جنم لیا
یقین ا گیا

خدا ابھی بشر سے بدگماں نہیں
مگر نئی کلی کا رنگ دیکھ کر

یہ واہمہ بھی جاگ اُٹھا
خدا بہار سے خفا ہے کیا؟

خدا خفا ہو یا نہ ہو
ہَوا ضرور بدگمان ہے

یہ زرد رُو،دریدہ جاں
یہ پور پور استخواں

اماوسوں کی رات میں نہ لوریاں ،نہ پالنا
خزاں کے ہاتھ بچ سکیں نہ شوخیاں نہ بچپنا

نہ ان کا ذہن آگہی کے لمس کا شریک ہے
نہ ان کی آنکھ روشنی کے ذائقے سے آشنا

ضِدوں کا وقت اور خود کو روکنا
شرارتوں کی عُمر اور سوچنا

یہ سراُٹھائیں کیا،انھیں کسی پہ مان ہی نہیں
کسی کا پیار ان کے حوصلوں کی جان ہی نہیں

ہَوائیں خوشبوؤں کے تحفے دلدلوں کے پار لے گئیں
گھٹائیں بارشوں کے سب سندیس ندیوں کو دے گئیں

غزال اب بھی تشنہ کام ہی رہے
ہَوا سے صرف نامہ و پیام ہی رہے

وہی ہے تشنگی،وہی رُتوں کی کم نگاہیاں
وہی اکیلا پن،وہی سمے کی کج ادائیاں

ہَوا میں طائرانِ آہنی کا وصل(اگرچہ)خُوب ہے
(خلا سے لے کر چاند تک زمیں کہاں غروب ہے؟)

مگر زمیں کے اپنے چاند،آج بھی گہن میں ہیں
جبیں کے داغ کیا دُھلیں ،سیاہیاں کرن میں ہیں

صبا نفس حیات کا جمال بے نمو رہا!
ہوا گزیدہ پُھول کا لباس بے رفو رہا

ہمکتے کِھلکھلاتے بچے اب خیال و خواب ہو گئے
ہمارے اگلے

اپنی بے بضاعتی میں کیا عذاب گئے
یہ شب نصیب

جن کو بُھوک نے جنم دیا ہے
تشنگی نے دیکھ بھال کی

یہ کھوکھلی جڑیں
نئی رُتوں میں شاخسارِجاں کو

کیسی کونپلیں عطا کریں گی؟
(کرسکیں گی؟۔۔یہ بھی سوچنے کی بات ہے)

شدید موسموں پہ پلنے والے پیڑ
کتنے اُونچے جائیں گے؟

یہ بے ثمر درخت
اپنی چھاؤں کتنی دُور لائیں گے؟

جڑوں کی بانجھ کھوکھ میں نہ رنگ ہے ،نہ رُوپ ہے
نظر کی آخری حدوں تلک

فضا میں صرف دُھوپ ہے!
نوادرات ،سیم و زر،گئے زمانوں کی کہانیاں بھی
محترم ہیں

ان کو جمع کرنا نیک کام ہے
مگر یہ بچے زندگی ہیں

میوزیم کے افسران زندگی جمع کریں
اِسے پناہ دیں
اسے نمود دیں
اسے غرور دیں

یہ بے اماں ۔۔یہ بے مکاں
یہ کم لباس، کم زباں

انھیں بھی راستوں میں نرم چھاؤں کی نوید ہو
ہرے بھرے لباس میں کبھی تو ان کی عید ہو

پروین شاکر


روزنا جرمن نژاد

روزنا جرمن نژاد
اس کے ہونٹوں میں حرارت
جسم میں طوفاں

برہنہ پنڈلیوں میں آگ
نیت میں فساد
رنگ و نسل و قامت و قد

سرزمین و دین کے سب تفرقوں سے بے نیاز
ہر کسی سے بے تکلف، ایک حد تک دلنواز

وہ سبھی کی ہم پیالہ، ہم نفس
عمر شاید بیس سے اوپر برس یا دو برس

روزنا جرمن نژاد
اور دیکھنے والوں میں سب

اس کی آسودہ نگاہی، بے محابا میگساری کے سبب
پیکر تسلیم و سر تا پا طلب

ان میں ہر اک کی متاع کل
بہائے التفات نیم شب

روزنا جرمن نژاد
اور اس کا دل۔ ۔ ۔ زخموں سے چُور

اپنے ہمدردوں سے ہمسایوں سے دور
گھرکی دیواریں نہ دیواروں کے سایوں کا سرور
جنگ کے آتش کدے کا رزق کب سے بن چکا

ہر آہنی بازو کا خوں
ہر چاند سے چہرے کا نور
خلوتیں خاموش و ویراں

اور دہلیز پر اک مضطرب مرمر کا بت

ایستا وہ ہے بچشم ناصبور
کون ہے اپنوں میں باقی
تو سن راہ طلب کا شہسوار

ہر دریچے کا مقدر، انتظار
اجنبی مہمان کی دستک خواب
شاید خواب کی تعبیر بھی

چند لمحوں کی رفاقت جاوداں بھی
حسرت تعمیر بھی
الوداعی شام، آنسو، عہد و پیماں
مضطرب صیاد بھی، نخچیر بھی

کون کر سکتا ہے ورنہ ہجر کے کالے سمندر کو عبور
اجنبی مہماں کا اک حرف فوار
نومید چاہت کا غرور

روزنا اب اجنبی کے ملک میں خود اجنبی
پھر بھی چہرے پر اداسی ہے نہ آنکھوں میں تھکن

اجنبی کا ملک جس میں چار سو
تاریکیاں ہی خیمہ زن

سب کے سایوں سے بدن
روزنا مرمر کا بت
اور اس کے گرد
ناچتے سائے بہت

سب کے ہونٹوں پر وہی حرف وفا
ایک ہی سب کی صدا
وہ سبھی کی ہم پیالہ، ہم نفس
عمر شاید بیس سے اوپر برس یا دو برس
اس کی آنکھوں میں تجسس اور بس

پروین شاکر

رقص

آئینہ سے فرش پر
ٹوٹے بدن کا عکس،

آدھے چاند کی صورت لرزتا ہے
ہوا کے وائلن کی نرم موسیقی

خنک تاریکیوں میں
چاہنے والوں کی سرگوشی کی صورت بہہ رہی ہے

اور ہجومِ ناشناساں سے پرے
نسبتاً کم بولتی تنہائی میں

اجنبی ساتھی نے ، میرے دل کی ویرانی کا ماتھا چُوم کر
مجھ کو یوں تھاما ہُوا ہے

جیسے میرے سارے دُکھ اب اُس کے شانوں کے لیے ہیں
دونوں آنکھیں بند کر کے

میں نے بھی اِن بازؤوں پر تھک کے سریوں رکھ دیا ہے
جیسے غربت میں اچانک چھاؤں پاکر راہ گم گشتہ مسافر پیڑ سے سر ٹیک دے

خواب صورت روشنی
اور ساز کی دلدار لے
اُس کی سانسوں سے گُزر کر

میرے خوں کی گردشوں میں سبز تارے بو رہی ہے
رات کی آنکھوں کے ڈورے بھی گُلابی ہو رہے ہیں

اُس کے سینے سے لگی
میں کنول کے پُھول کی وارفتگی سے

سر خوشی کی جھیل پر آہستہ آہستہ قدم یوں رکھ رہی ہوں
جیسے میرے پاؤں کچّی نیندوں میں ہوں اور ذرا بھاری قدم رکھے تو پانی ٹوٹ جائے گا

شکستہ روح پر سے غم کے سارے پیرہن
ایک ایک کر کے اُترتے جا رہے ہیں

لمحہ لمحہ
میں زمیں سے دُور ہوتی جا رہی ہوں
اب ہَوا میں پاؤں ہیں
اب بادلوں پر

اب ستاروں کے قریب
اب ستاروں سے بھی اُوپر
اور اُوپر…۔۔اور اُوپر…۔۔اور


پروین شاکر

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...