خاموشي بھی ناز سے خالی نہیں
تم نہ بولو ہم پکارے جائیں گے
تم مرے پاس رہو پاسِ ملاقات رہے
نہ کہو بات کسی سے تو مری بات رہے
وہ خود لئے بیٹھے تھے آغوشِ توجہ میں
بےہوش ہی اچھا تھا ناحق مجھے ہوش آیا
بدل گئیں وہ نگاہیں یہ حادثہ تھا اخیر
پھر اسکے بعد کوئی انقلاب ہو نہ سکا
تو بھی ہو سکتا ہے جانِ رنگ و بو میری طرح
پہلے پیدا کر چمن میں آبرو میری طرح
کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
مہینے اس خوابیدہ عالم کو بنایا کام کا
گرمیءِ محفل نتیجہ ہے مرے پیغام کا
صداءِ سور سے میں قبر میں نہ جاگوں گا
کسی سنی ہوئی آواز سے پکار مجھے
سیماب کو شگفتہ نہ دیکھا تمام عمر
کمبخت جب ملا ہمیں غم آشنا ملا
نہ تھا وہ بھید کہ دنیا مجھے سمجھ سکتی
میں خود بھی اپنے سمجھنے میں کامیاب نہ تھا
میخانۂِ سخن کا گدائے قدیم ہوں
ہر رنگ کی شراب پیالے میں ہے مرے
میں اس دنیا میں اے سیماب اک رازِ حقیقت تھا
سمجھنے کی طرح اہلِ جہاں مجھ کو کہاں سمجھے
دیکھتے کے دیکھتے دنیا سے میں اٹھ جاونگا
دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے
سیماب اکبرآبادی
No comments:
Post a Comment